دنیا میں سیاسی حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں اور اس وقت ایک ایسا منظرنامہ اُبھر رہا ہے جس نے اسرائیل کو سفارتی اور جغرافیائی طور پر شدید دباؤ میں ڈال دیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں اسرائیل کے خلاف تین بڑے بلاکس بن چکے ہیں، جن کی تشکیل اور پالیسیوں نے صیہونی ریاست کو نہ صرف تنہا کر دیا ہے بلکہ اس کی بقا کو بھی چیلنج کر دیا ہے۔
پہلا بلاک پاکستان کی قیادت میں اُبھر رہا ہے، جس میں ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان شامل ہیں۔ حالیہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے دوران اسرائیل نے کھل کر بھارت کی حمایت کی، جس سے یہ واضح ہو گیا کہ دشمن کا دوست، دشمن ہی ہوتا ہے۔ اس تناظر میں اسرائیل اب پاکستان کے دشمنوں کی صف میں شمار ہونے لگا ہے۔
دوسری جانب ترکیہ اور آذربائیجان نے اس موقع پر پاکستان کی حمایت کی، کیونکہ ان دونوں ممالک کے بھارت کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔اسی سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ ایران، ترکیہ، آذربائیجان اور تاجکستان کے دورے پر ہیں۔ پاکستان کی خواہش ہے کہ ان ممالک کے ساتھ تعلقات مزید مستحکم کیے جائیں تاکہ بھارت اور اسرائیل کے اثر و رسوخ کو محدود کیا جا سکے۔
ایران کے پہلے سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں، اور وزیراعظم شہباز شریف نے تہران کے دورے کے دوران ایران کے جوہری پروگرام کی حمایت کا اعلان بھی کیا، جو ایک اہم سفارتی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
دوسرا بلاک امریکہ اور عرب ممالک پر مشتمل ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے میں اسرائیل کو نظر انداز کیا گیا، اور کئی ایسے اقدامات کیے گئے جو اسرائیل کو کسی طور بھی قبول نہیں۔
ان اقدامات میں شامل ہیں:شام کے عبوری صدر سے ملاقات اور ان کی تعریف،شام پر پابندیاں ختم کرنے کا عندیہ،یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی فوج کے درمیان جنگ بندی،حماس کے ساتھ مذاکرات اور غزہ میں امریکی قیدی کی رہائی کے لیے ڈیل، ترکیہ کے صدر کی تعریف اور پابندیاں ہٹانے کا اشارہ اور ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر مذاکرات کا اعلان۔۔۔یہ تمام اقدامات اسرائیل کے لیے سخت ناپسندیدہ ہیں۔
دوسری طرف عرب ممالک اس وقت امریکہ میں تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ٹرمپ کے لیے اسرائیل کے مقابلے میں عرب ممالک زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔
عرب ممالک ہر صورت میں فلسطین-اسرائیل مسئلے کا حل چاہتے ہیں، جس کی کئی وجوہات ہیں:
عرب دنیا میں زیادہ تر حکومتیں بادشاہت یا شخصی حکمرانی پر مبنی ہیں، اور غزہ کی صورتحال کے بعد عوامی رائے اسرائیل کے خلاف ہو چکی ہے۔ ان حکومتوں کو خطرہ ہے کہ کوئی اندرونی یا بیرونی مخالف اس عوامی ردعمل کو ان کے خلاف استعمال نہ کر لے۔
دوسری وجہ اگر اسرائیل نے غزہ اور پھر پورے فلسطین پر قبضہ کر لیا، تو لاکھوں افراد ہجرت کرکے عرب ممالک اور یورپ کا رخ کریں گے، جو ان کے لیے ناقابلِ برداشت صورتحال ہوگی۔
تیسرا بلاک یورپی ممالک کا ہے۔ مارچ میں اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی اور امدادی سامان کی ترسیل بند کرنے کے بعد اقوام متحدہ نے انتباہ جاری کیا کہ اگر امداد کی فراہمی بحال نہ کی گئی تو 14 ہزار بچے بھوک سے مر جائیں گے۔
اس کے بعد فرانس، کینیڈا اور برطانیہ نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے اسرائیل کو خبردار کیا کہ اگر امدادی سامان کی فراہمی فوری طور پر بحال نہ کی گئی تو وہ نہ صرف اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کریں گے بلکہ اس پر پابندیاں عائد کرنے پر بھی غور کریں گے۔
یورپی ممالک کے اسرائیل کے خلاف سخت رویے کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ان ممالک میں بھی عوامی رائے اسرائیل کے خلاف ہو چکی ہے، اور سیاسی جماعتیں عوامی حمایت کے بغیر انتخابی میدان میں کمزور ہو رہی ہیں۔ جیسا کہ امریکہ میں ٹرمپ کو غزہ میں جنگ بندی کی حمایت پر ووٹ ملے، مگر وہ تاحال کامیاب نہ ہو پائے۔
اسپین، ڈنمارک اور نیدرلینڈ پہلے ہی غزہ کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں، اور دیگر یورپی ممالک بھی اس سمت میں سوچ رہے ہیں۔ وہ نہیں چاہتے کہ تاریخ میں ان کا شمار ان ممالک میں ہو جو اسرائیل کے نسل کشی کے وقت اس کے اتحادی تھے۔
اس سے بڑی پیش رفت اگلے ماہ یعنی 14 جون کو ہونے والا نیویارک میں اجلاس ہے، جو سعودی عرب اور فرانس کی زیرِ صدارت اقوام متحدہ کے زیرِ انتظام منعقد ہو رہا ہے۔ اس کانفرنس میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کے لیے جامع منصوبہ بندی اور حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ یہ صرف رسمی کارروائی نہیں ہوگی، بلکہ اس پر عملی اقدامات بھی کیے جائیں گے۔
موجودہ عالمی منظرنامے میں ہر ملک اپنے مفادات کے تحت فیصلے کر رہا ہے، مگر جو پالیسیاں تشکیل پا رہی ہیں وہ زیادہ تر غزہ کی حمایت میں اور اسرائیل کے خلاف جا رہی ہیں۔ دنیا میں بننے والے یہ تین بڑے بلاکس — اسلامی بلاک، امریکہ-عرب بلاک، اور یورپی بلاک — اسرائیل کو سفارتی طور پر گھیرے میں لے چکے ہیں، اور یہ صورتحال اسرائیل کے لیے شدید تشویش کا باعث بن چکی ہے۔