ماں کی دعا سے جو کبھی زخم نہ کھاتا تھا
وہ بچہ آج خود ایک خاموش جنازہ ہے
باجوڑ کی سنگلاخ وادیوں میں ایک بار پھر آنسو، لاشیں اور بین گونج رہے ہیں۔ حالیہ فوجی آپریشن کے دوران ہونے والے افسوسناک واقعات نے نہ صرف اس قبائلی علاقے کو غم میں ڈوبا بلکہ پورے خیبر پختونخوا میں غصے اور بے بسی کی لہر دوڑا دی،،،، یہ صرف ایک معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک پوری قوم کے ضمیر پر سوال ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق، آپریشن کے دوران کی جانے والی گولہ باری میں تین معصوم بے گناہ افراد جاں بحق ہوئے ان میں بچے بھی تھیں ۔ ان بچوں کا جرم کیا تھا؟ وہ تو اسکول جانا چاہتے تھے، کھیلنا چاہتے تھے، زندہ رہنا چاہتے تھے۔ ان کی لاشیں جب گلیوں میں پڑی تھیں، تب ہر ماں کے کلیجے میں آگ لگی اور ہر باپ کی آنکھ سوال بن گئی۔ ان گھروں میں روٹیاں نہیں پکی، صرف آہیں اٹھیں۔ یہ وہ لمحے تھے جب پورے علاقے کی فضاء سوگوار ہو گئی۔
اس بار ردعمل مختلف تھا۔ صرف مرد نہیں، باجوڑ کی خواتین بھی اپنے گھروں سے نکل آئیں۔ سفید چادریں اوڑھے، ہاتھوں میں بچوں کی تصاویر اور آنکھوں میں نمکین سی امید لیے، انہوں نے احتجاج کیا۔ یہ احتجاج صرف ریاستی پالیسیوں کے خلاف نہیں تھا بلکہ ایک ماں کے دل کا درد بھی تھا۔ وہ کہہ رہی تھیں ،،،ہمارے بچے دہشتگرد نہیں تھے، خواب دیکھنے والے معصوم شہری تھے،،،، ان کی آواز لرز رہی تھی، لیکن عزم میں لرزش نہ تھی۔
یہ آوازیں معمولی نہیں،،، یہ آوازیں ایک جبر زدہ معاشرے کے اندر سے ابھرتی وہ چیخ ہیں جو برسوں کے صبر کے بعد نکلتی ہے۔ ان خواتین کا مطالبہ بالکل واضح اور جائز تھا کہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ضرور ہو، لیکن اس میں عام شہری، خاص طور پر بچے اور خواتین، محفوظ رہیں۔ جب دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر گھر کے اندر ہی بے گناہوں کی لاشیں گریں، تو اعتماد اور امن کیسے قائم ہوگا؟ یہ سوال نہ صرف حکومت بلکہ ہر بااختیار ادارے سے کیا جانا چاہیے،،،،
یہ بھی سچ ہے کہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائی ضروری ہے، لیکن کیا یہ بھی ضروری نہیں کہ شہریوں کی زندگی کو مقدم رکھا جائے؟ اگر ایک طرف بم گر رہے ہوں اور دوسری طرف ننھی جانیں کچلی جا رہی ہوں، تو پھر ہم کس امن کی بات کرتے ہیں؟ ریاستی اداروں کو سوچنا ہوگا کہ اگر دہشتگردوں کو ختم کرنا ہے تو ان کے خلاف مؤثر اور جدید حکمتِ عملی اپنائی جائے،،،، ہر آپریشن سے پہلے خفیہ معلومات، ٹارگٹ کلیرنس اور شہری تحفظ کو اولیت دی جائے۔
باجوڑ کا یہ سانحہ صرف ایک خبر نہیں، ایک چیخ ہے جو نہ میڈیا پر مکمل سنی گئی اور نہ ایوانوں تک پہنچی،،، شاید باجوڑ کی ماؤں کی سسکیاں ٹی وی پر نہ آئیں، لیکن تاریخ ضرور لکھے گی کہ جب ماں کی گود سے لاش اٹھتی ہے، تب امن کی تعریف بدل جاتی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب عوام سوال کریں گے اور ان سوالوں کے جواب دینا مشکل ہوگا۔ کیونکہ ظلم کی عمر زیادہ نہیں ہوتی، لیکن ماں کا نوحہ صدیوں تک زندہ رہتا ہے۔