اسلام آباد سے ارشد اقبال کی تحریر: ۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ریاست کو چیلنج دیتے ہوئے کہا کہ اگر ریاست پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو ختم کر سکتی ہے تو ختم کرکے دکھائے ۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے خاتمے کا اختیار صرف بانی پی ٹی آئی کے پاس ہے ، اس کے علاوہ کوئی مائی کا لال ہماری حکومت ختم نہیں کر سکتی ۔
علی امین گنڈاپور نے ریاست کو یہ چیلنج ایک ایسے وقت میں دیا ہے جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے مخصوص نشستیں بحال کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ۔
الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے بعد بھی خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کو کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا کیونکہ ان کے پاس صوبے میں دوتہائی اکثریت ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر ان کے اراکین نے دوسری جماعتوں میں جانے کا فیصلہ کیا تو پھر صوبائی حکومت مشکل میں ضرور پڑ سکتی ہے ۔
مخصوص نشستوں کی دیگر جماعتوں میں تقسیم کے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر پی ٹی آئی رہنماوں کا ردعمل فطرتی ضرور ہے لیکن معقول ہرگز نہیں ۔الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے بعد پی ٹی آئی کو اب ایک بھی مخصوص نشست نہیں ملے گی ،دوسرا یہ کہ اب پی ٹی آئی کو ایک بار پھر انٹرا پارٹی الیکشن کرانا ہوگا ۔پی ٹی آئی کے گزشتہ انٹرا پارٹی الیکشن پر بھی پارٹی کے اندر سے نہ صرف سخت تنقید ہوئی تھی بلکہ ان کے اپنے رہنما وں نے پارٹی کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا ۔ اور ان کی درخواستوں پر ہی الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو دو بار کالعدم قرار دے کر اسے دوبارہ کرانے کی ہدایت کی تھی ۔
سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اب جس طرح علی امین گنڈاپور اور دیگر رہنماوں کا سخت ردعمل آیا ہے اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ پارٹی کے اندر اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں کیونکہ ایک دو روز قبل ہی صوبائی مشیر اطلاعات او صوبائی صدر کے درمیان سخت لفظی جنگ ہوئی تھی جو تاحال جاری ہے ۔ بیرسٹر سیف نے یہاں تک کہا تھا کہ اگر جنید اکبر پارٹی کو متحد نہیں کر سکتے تو گھر چلے جائیں ،جبکہ جنید اکبر نے بیرسٹر سیف کو’’اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ‘‘ قرار دیا تھا ۔
ان حالات میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور ریاست کو اپنی حکومت کے خاتمے کا چیلنج دے رہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا یہ وقت ایسی باتوں اور ریاست کو چیلنج کرنے کا ہے ؟ کیا یہ وقت سانحہ سوات کی غیر جانبدار انکوائری اور اصل ذمہ داروں کو سزا دلوانے کا نہیں ؟ کئی بار اسلام آباد پر ناکام چڑھائی کے بعد کیا اب کی بار خود وزیراعلیٰ اپنی حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں اور سیاسی شہید بننا چاہتے ہیں ؟ بالکل ایسے ہی جیسے عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفے دیئے اور سیاسی شہید بننے کی ناکام کوشش کی ؟
تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ گنڈاپور صاحب کی زبان میں نرمی آ نہیں رہی ؟ اور اب تو ان کی زبان میں اتنی کڑواہٹ آگئی کہ پوری ریاست کو ہی چیلنج کرڈالا ۔ کیا صوبے کے مسائل حل کرنے کیلئے ان کے پاس وقت نہیں ؟ کیا وزیراعلیٰ صاحب اور پارٹی کے دیگر رہنما صوبے میں جاری ناروا بجلی کی لوڈشیڈنگ کا حل نہیں چاہتے ؟کیا صوبائی حکومت کا ایک ہی موٹو ہے کہ عمران خان کو کسی طرح رہا کروایا جائے ؟ اگر بالفرض خان صاحب رہا ہو بھی جاتے ہیں تو کیا ان کی رہائی بالعموم ملکی اور بالخصوص خیبر پختونخوا کے مسائل کا حل ہے ؟ باوجود اس کے کہ وہ چار سال تک وزیراعظم رہے ہیں اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی تیسری باری ہے ۔
ان حالات میں اگر علی امین گنڈاپور اپنے بانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ’’سیاسی شہید ‘‘ ہو بھی گئے تو صوبے کے عوام کے مسائل کا کیا ہوگا؟ کیا پھر بھی یہ لوگ صوبے کے عوام کے پاس ووٹ لینے کیلئے جائیں گے ؟ اور اگر ووٹ لینے جائیں گے بھی تو کس منہ سے ؟ اس پر پی ٹی آئی قیادت کو سوچنا ہوگا ۔
اب بھی وقت ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت وفاقی کے ساتھ بیٹھے ، صوبے کے مسائل حل کرنے کیلئے مذاکرات کرے، عوام کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی لے، پی ٹی آئی قیادت کو سوچنا ہوگا کہ دیگر صوبوں میں کیا ہو رہا ہے اور خیبر پختونخوا میں کیا ہورہا ہے ؟ اسلام آباد سمیت پنجاب میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے ، حالانکہ یہاں پختونخوا کی ہی بجلی استعمال ہو رہی ہے لیکن اپنی بجلی ہونے کے باوجود صوبے کے لوگوں کی اس سے محرومی کے ذمہ دار تحریک انصاف نہںیں تو اور کون ہے ؟ یقین مانیں اگر پی ٹی آئی نے صرف خیبر پختونخوا میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا ہی مسئلہ حل کرلیا تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہوگی ۔