پشاور سے خالد خان کی خصوصی تحریر: ۔
اسلام، جو بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور احترامِ آدمیت کے لیے اترا تھا، بالآخر سرمایہ دارانہ نظام کے ہتھے چڑھ گیا۔ سامراجی سازشوں نے اسے بے روح کر کے رسومات تک محدود کر دیا۔ خدا کے نام پر ہر مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کرنے کے لیے تیار بیٹھا ہے، مگر یہ تکلیف کبھی بھی گوارا نہیں کرے گا کہ خدا کے احکامات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔
ویسے تو کہتے ہیں کہ مسلمان ایک امت ہے اور نسلی تقسیم صرف شناخت کے لیے ہے۔ ویسے تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ امت ایک جسم کی مانند ہے اور کسی ایک عضو کا درد پورے وجود کی تکلیف ہوتی ہے۔ باوجود اس کے، مسلم امہ مختلف ممالک، نسلی تفاخر اور عرب و عجم میں منقسم ہے۔
نہ غزہ پر کوئی چیخ اٹھا اور نہ ہی کشمیر پر کسی کو درد محسوس ہوا۔ ہمیں عرب کے تیل پر حق تو دور کی بات، مذہبی سیاحت کے لیے بھی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔ اب شیطان کو مارنے والے کنکر بھی ڈالرز میں خریدنے پڑتے ہیں — سعودی حکومت نے حجاج کو پابند کیا ہے کہ وہ سرکار سے تین تا پانچ ڈالر میں کنکر خریدیں۔ ارے بھائی، ٹریلین ڈالرز اور سونے سے مزین جہاز ڈوبتی ہوئی امریکی معیشت میں اس لیے ڈالے گئے تھے کہ اب وصولی ہمارے کنکروں سے ہو گی۔
چونکہ ہم حج اور عمرہ کی روح سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی جوق در جوق ان کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں، اس لیے میں نے اس عمل کو "مذہبی سیاحت” کہا جو سعودی عرب کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
اسلام آج دنیا کا واحد مذہب ہے جس کے پیروکار باقاعدہ جنت خرید سکتے ہیں۔
سرمایہ مخالف مذہب کو دشمنانِ خدا نے سرمائے کا اسیر بنا دیا ہے۔
مجھ میں استطاعت نہیں ہے کہ میں سنگِ مرمر کی مسجد بنا سکوں، لہٰذا جنت میں محل سے محروم رہوں گا۔
خیرات، زکوٰۃ اور صدقات ادا نہیں کر سکتا تو میرا مومنین میں کہاں اور کیونکر جگہ ہوگی؟
حج اور عمرہ کی ادائیگی نہیں کر سکتا، لہٰذا کبھی بھی "اللہ کا مہمان” نہیں بن سکوں گا۔
ہر نیکی اور ہر ثواب خریدی جا سکتی ہے، اگر آپ کے پاس حرام کا پیسہ ہو ،معاشرے میں معزز بھی ہوں گے اور جنت کے ٹھیکیدار بھی۔
میں نے مذہب کے علَم برداروں کو ہمیشہ حرام خوروں کے گرد منڈلاتے ہوئے دیکھا ہے۔ کبھی کسی عالم کو منشیات فروش، ظالم، قاتل، کرپٹ اور حرام خور کا سوشل بائیکاٹ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
عیدالاضحیٰ کے موقع پر قربانی کن لوگوں پر واجب ہے، مجھے نہیں معلوم۔ کیا صرف حجاج قربانی کریں گے یا دنیا میں ہر صاحبِ استطاعت کرے گا؟
مجھے نہیں پتہ، اور جن کو پتہ ہے وہ بتاتے نہیں۔ آج کا مسلمان معاشرتی دباؤ کا شکار ہے، رسوم و رواج کا غلام ہے۔
ابا و اجداد سے لے کر گزشتہ عید تک جتنی قربانیاں ہم نے کی ہیں، وہ ساری رائیگاں چلی گئی ہیں۔
امسال علما شد و مد سے کہہ رہے ہیں کہ بھینس پر قربانی نہیں ہو سکتی۔
یہی بھینس ہی تو تھی جسے ہم نے شادیوں میں دیگوں کی زینت و ذائقہ بنایا، قل پر اس کے ذریعے مردے کو بخشوایا اور اس کی قربانی دے کر اس پر سوار جنت جانے کے خواب دیکھے۔
مگر امسال بتایا گیا کہ سارا ثواب، تمام حساب کتاب صفر۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب اللہ تبارک و تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے اپنے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی دے رہے تھے تو اللہ نے مینڈھا بھیجا۔
ہم سنتِ ابراہیمی کی پیروی میں ہر عید قرباں پر اپنی قربانی دیتے ہیں ۔
احساس کی قربانی، ضرورتوں کی قربانی، سفید پوشی کی قربانی اور بچوں کی خواہشات کی قربانی۔
کئی احساسات اور ضروریات پر چھری پھیر کر کہیں کسی مریل بھینس میں حصہ لے لیتے ہیں،
لیکن کہا گیا کہ امسال سے بھینس قبول نہیں۔
کیا کریں اے خدا! ایک اپنا آپ ہی بچا ہے، اور وہ بھی تُو قبول نہیں کرتا۔
امسال ہماری لاج رکھ لے، اگلا برس کس نے دیکھا ہے۔
مگر سچ یہ ہے کہ میرے جیسے عام آدمی کے لیے قربانی اب عبادت نہیں رہی ۔
یہ سالانہ معاشی جھٹکا بن چکی ہے، جو صرف دکھاوے، سماجی دباؤ اور فتووں کے خوف سے برداشت کرنا پڑتی ہے۔
ایک لاکھ روپے کی قربانی اُس شخص سے مانگی جا رہی ہے جو مہینے کے راشن، کرایہ، بچوں کے سکول اور والدین کی دوا کے بیچ جکڑا ہوا ہے۔
قرآن نے صاف کہا ہے کہ اللہ کو نہ گوشت چاہیے نہ خون، صرف تقویٰ:
"لَن يَنَالَ ٱللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَـٰكِن يَنَالُهُ ٱلتَّقْوَىٰ مِنكُمْ”
مگر ہم وہ امت ہیں جس نے قربانی کو گوشت، خون، تصویروں، ویڈیوز اور ذاتی ڈیپ فریزرز تک محدود کر دیا ہے۔
ارے بھینس بہن تو ہم سے خوش قسمت نکلی ، بچ گئی قتال سے،
مگر ہم جب تک زندہ ہیں، سال بہ سال ذبح ہوتے رہیں گے۔