انسان ایک جیسے پیدا ہوتے ہیں ۔ ان کے جسم، جذبات، عقل، محبت، نفرت، خوف، خواب، آہیں اور امیدیں تقریباً ایک جیسی ہوتی ہیں ۔ ایک افریقی ماں کی مامتا بھی اتنی ہی سچی ہوتی ہے جتنی کسی ایشیائی یا یورپی ماں کی ۔ ایک امریکی بچے کا آنسو بھی اتنا ہی نمکین ہوتا ہے جتنا کسی پاکستانی یا چینی بچے کا ۔ فطرت نے سب انسانوں کو یکساں صلاحیتوں اور کمزوریوں کے ساتھ پیدا کیا ہے ۔ یہی وہ بنیادی دلیل ہے جس سے یہ مانا جاتا ہے کہ تمام انسان برابر ہیں ۔
مگر سوال یہ ہے کہ جب انسان ایک جیسے ہیں تو پھر اقوام میں اتنا فرق کیوں ہے؟ امریکہ، یورپ، چین اور پاکستان جیسے ممالک کے درمیان فرق کیسے پیدا ہوا؟ اس فرق کی بنیاد رنگ، نسل یا جغرافیہ نہیں بلکہ وہ سوچ، رویے، ادارے اور اصول ہیں جو قومیں اپناتی ہیں ۔ فرق وہاں سے پیدا ہوتا ہے جہاں سے قومیں اپنے ماضی کو سمجھتی ہیں، حال کا سامنا کرتی ہیں اور مستقبل کے لیے فیصلہ سازی کرتی ہیں ۔
امریکہ نے فرد کو آزادی، اداروں کو خودمختاری اور قانون کو برتری دی ۔ وہاں تعلیم صرف ڈگری کا نام نہیں بلکہ شعور کی روشنی ہے ۔ یورپ نے علم، تحقیق، انصاف اور فلاحی نظام پر زور دیا ۔ چین نے سخت محنت، اجتماعی نظم اور طویل المدتی منصوبہ بندی کو اپنایا ۔ ان سب نے اپنی خامیوں کے ساتھ اپنی قوموں کو بہتر بنانے کی مسلسل کوشش کی ۔
دوسری طرف، ہم جیسے ممالک نے اکثر قربانیوں کے بجائے مفادات کو، اداروں کی مضبوطی کے بجائے شخصیات کو، قانون کی بالادستی کے بجائے تعلقات کو ترجیح دی ۔ ہم نے تاریخ سے سیکھنے کے بجائے اسے چھپایا یا مسخ کیا ۔ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو دوسروں پر ڈال دیا اور نتائج کا الزام ہمیشہ کسی بیرونی سازش پر لگا دیا ۔ ہماری تعلیم محض ڈگری، مذہب محض نعرہ، سیاست محض ذاتی مفاد، اور قوم پرستی محض جذبات بن کر رہ گئی ہے ۔
قوموں کا فرق فطرت نے نہیں، خود انسانوں نے پیدا کیا ہے ۔ فرق صرف دولت یا ٹیکنالوجی کا نہیں، سوچ کا ہے ۔ وہ قومیں جو وقت کی قدر کرتی ہیں، اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتیں، اور اجتماعی بھلائی کو ترجیح دیتی ہیں، وہ ترقی کرتی ہیں ۔ جو قومیں ماضی کے زخموں میں الجھی رہتی ہیں، سازشوں میں پناہ ڈھونڈتی ہیں، اور تبدیلی سے گھبراتی ہیں، وہ پیچھے رہ جاتی ہیں ۔
انسان برابر ضرور ہیں، لیکن اقوام کی حالت ان کے اجتماعی فیصلوں، رویوں اور ترجیحات پر منحصر ہوتی ہے ۔ قومیں انسانوں کے رویوں کا اجتماعی عکس ہوتی ہیں ۔ جو اپنی سوچ بدلتے ہیں، وہ اپنی تقدیر بھی بدل لیتے ہیں ۔ فرق قوموں میں نہیں، ان کے انتخاب میں ہے ۔