پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں شدت پسندوں نے اب جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے کمرشل کواڈ کاپٹر ڈرونز کے ذریعے سیکیورٹی فورسز پر حملے شروع کررہے ہیں، جو ملک کے پہلے ہی سے شورش زدہ اور حساس خطے میں ایک خطرناک پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
پولیس افسران کے مطابق یہ ڈرونز، جو چار پنکھوں کی مدد سے عمودی طور پر اڑان بھرنے اور زمین پر اترنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، شدت پسندوں کے ہاتھوں میں ایک نیا مہلک ہتھیار بن چکے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے محدود وسائل اور جدید ٹیکنالوجی کی کمی کے باعث وہ اس نئے خطرے سے نمٹنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
پولیس کے مطابق رواں ماہ کے آغاز میں شدت پسندوں نے دو کواڈ کاپٹر ڈرونز کے ذریعے بنوں کے ایک پولیس اسٹیشن کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں ایک خاتون جاں بحق جبکہ قریبی گھر میں موجود تین بچے زخمی ہو گئے۔
پولیس کا کنہا ہے کہ ہفتے کے روز ایک اور ڈرون، جو ایک اور پولیس اسٹیشن کے اوپر پرواز کر رہا تھا، کو خودکار رائفلوں سے نشانہ بنا کر مار گرایا گیا۔ اس ڈرون میں مارٹر شیل نصب تھا۔
صرف پچھلے دو ماہ میں بنوں اور ملحقہ علاقوں میں کم از کم آٹھ ڈرون حملے پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا چکے ہیں۔
پولیس افسر سجاد خان کا کہنا تھا کہ شدت پسند ابھی اس ٹیکنالوجی کے استعمال میں ماہر نہیں ہوئے اور اسی لیے ان کے حملے ابھی تک مکمل طور پر مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔ انہوں نے کہا، یہ شدت پسند جدید ہتھیار حاصل کر چکے ہیں، لیکن وہ ابھی تجربات کے مراحل میں ہیں اور اسی لیے درست نشانے لگانے میں ناکام ہیں۔”
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق شدت پسند کواڈ کاپٹرز کے ذریعے آئی ای ڈیز یا مارٹر شیلز پھینک رہے ہیں، جنہیں لوہے کے ٹکڑوں اور بال بیرنگز سے بھرا گیا ہوتا ہے تاکہ زیادہ نقصان ہو سکے۔
خیبرپختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار حمید کے مطابق پولیس کے پاس ان ڈرونز سے نمٹنے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ ہماری فورس ان شدت پسندوں کے مقابلے میں وسائل کی شدید کمی کا شکار ہے۔
ابھی تک کسی شدت پسند گروپ نے ان ڈرون حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ تاہم اس علاقے میں سرگرم مرکزی شدت پسند گروہ تحریک طالبان پاکستان ہے، جس نے ڈرون استعمال کرنے سے انکار کیا ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق 2024 کے دوران ملک بھر میں شدت پسندوں کی جانب سے 335 حملے کیے گئے، جن میں 520 افراد جان سے گئے۔
دوسری جانب حالیہ ہفتوں میں سرحدی علاقوں کے ہزاروں مکینوں نے مظاہرے کیے ہیں، جن میں انہوں نے نہ صرف شدت پسندوں کے حملوں پر احتجاج کیا بلکہ اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ فوج کی جانب سے ممکنہ کارروائی ان کے گھروں سے جبری انخلا کا سبب بن سکتی ہے۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ انہیں خدشہ ہے کہ اگر فوج دوبارہ بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کرتی ہے تو وہ دوبارہ اپنے گھروں سے بےدخل ہو جائیں گے، جیسا کہ 2014 کے آپریشن کے دوران ہوا تھا، جب لاکھوں افراد کو کئی مہینوں یا برسوں تک اپنے علاقوں سے دور رہنا پڑا تھا۔