ایک نوکر نے مالک کے سامنے آکر دھمکی آمیز لہجے میں بولا کہ میری تنخواہ بڑھادو ورنہ؟
مالک نے غصے سے کہا کہ ورنہ کیا؟تو بے چارے نے نہایت معصومیت کے ساتھ کہا کہ ورنہ اسی تنخواہ پر گزارہ کرونگا۔
یہی حال پی ٹی آئی کے ساتھ حالیہ اسلام آباد دھرنے اور احتجاج کے دوران ہوا،ان کو بار بار بتایا گیا کہ احتجاج ملتوی کرو،حکومت بانی پی ٹی آئی کو رعایت دیگی،لیکن پی ٹی آئی قیادت بضد تھی کہ نہیں ان کو ابھی رہا کرنا ہوگا،ورنہ دھرنا ہوگا،مرنا ہوگا اور یہ نہیں بتایا تھا کہ واپس مڑنا بھی بھاگ کر ہوگا،حکومت نے کہا کہ چلو احتجاج کرو،دیکھتے ہیں کہ آگے کیا ہوتاہے،ابھی احتجاج ختم ہوا،ڈی چوک صاف ہوگیا،جلی ہوئی گاڑیاں،پرانے جوتے،پھاڑے ہوئے کپڑے ہی ڈی چوک میں نظر آتے ہیں اور مونچوں والی سرکار کارکنوں کو جلتی آگ میں چھوڑ کر پیرنی کے ہمراہ آبدوز کی طرح اسلام آباد میں غوطہ زن ہوکر مانسہرہ میں نکل آئی،اور پھر مانسہرہ میں پریس کانفرنس کرکے اعلان کیا کہ احتجاج ابھی ختم نہیں ہوا،بابا احتجاج تو آپ ڈی چوک سے آخری قدم اٹھاکر خود ختم کراچکے ہو،البتہ وہاں کارکنوں پر کیا قیامت گزری؟وہ کارکنوں کا مسئلہ تھا،وہ درد اِن غریب کارکنوں کا تھا جو پیرنی،اسد قیصر،عمرایوب اور مونچھوں والی سرکار کبھی بھی محسوس نہیں کرسکتے،وفاقی حکومت نے احتجاج کو بہت بری طرح ڈیل کیا اس میں شک نہیں،اگر پی ٹی آئی نے احتجاج کرنا تھا تو کرنے دیتے،کونسا آسمان سر پر اٹھانا تھا،لیکن احتجاج کرنے نہیں دیا،جو پی ٹی آئی کا آئینی اور قانونی حق تھا،یہ بات بھی اہم ہے کہ اگر احتجاج پرامن ہوتا تو،
بہرحال پھر دوسری غلطی پی ٹی آئی کی قیادت نے کی جب ان کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتجاج سے منع کیا،حکومت نے منع کیا،وزیرداخلہ نے دوسری جگہ احتجاج کرنے کی پیشکش کی،لیکن پی ٹی آئی والوں کو ایک نادیدہ انقلاب نظر آرہاتھا جو کبھی آنے والا ہے ہی نہیں اس ملک میں،اور پھر کیا ہوا؟وہ سب نے دیکھ لیا،اور پھر کئی کارکنوں کی موت اور لاپتہ ہونے کی الگ الگ دستانیں سنانے کا وقت ہوا،اس بارے بھی عجیب و غریب منطق پیش کی جارہی ہے،کبھی کہا جارہاہے کہ سینکڑوں لوگ لاپتہ ہیں کبھی کیا کیا ارشادات فرماتے ہیں؟اور جو پولیس والے،رینجرز والے شہید ہوئے ان کے بارے مکمل خاموشی ہے جیسے ان کو قتل کرنے والے کوئی اور تھے۔
اس میں ایک اور اہم بات یہ کہ احتجاج کی کوریج کے لئے ہم پشاور سے اسلام آباد جارہے تھے تو راستے میں ہم نوجوانوں کو دیکھ رہے تھے جو بڑے پرجوش نعرے لگاکر جارہے تھے ۔میں نے اپنے کیمرہ مین کو بتایا کہ بعد میں دیکھنا کہ یہ لوگ کس قدر اپنی جسموں کو تاب دیتے ہوئے واپس آئینگے اور پھر ایساہی ہوا،
غیرسنجیدگی کی یہ حالت تھی کہ چھچھ نامی جگہ پر چالیس چالیس فٹ کے دو دو کنٹینرز کو آپس میں جوڑنے کے لئے ویلڈ کرکے ان کو ریت سے بھردیاگیا تھا پر ان کے اوپر ریت کی بوریوں کی دیواریں بناکر وہاں پولیس کو سٹینڈبائی بٹھایاگیا تھا اور ان لوگوں کے پاس کوئی بھاری بھرکم مشینری نہیں تھی،ایک پریس کانفرنس کے دوران میں نے شاندانہ گلزار سے پوچھا کہ اتنے بھاری کنٹینرز کو کیسے ہٹائینگے آپ لوگ؟
تو موصوفہ نے کہا کہ ہم ہاتھوں سے ہٹائینگے،اس طرح ہاتھوں سے اگر سٹیل اور لوہے کی دیواریں کاٹی جاتی تو آج کوئی جیل محفوظ اور کوئی قیدی جیل میں نہ ہوتا،پتہ نہیں پی ٹی آئی کے ان ایکٹرنما لیڈرز سلطان راہی کی کونسی فلمیں دیکھ کر ان سے متاثر ہوتے ہیں۔
ظالموں اگر فلمیں دیکھنا ہی ہیں تو ٹام کروز،وین ڈیزل اور مشن ایمپاسبل فور فائیو ٹائپ کی فلمیں دیکھا کریں تاکہ کچھ تکنیک تو ان سے لے سکیں؟
بہرحال ایسا معلوم ہورہاتھا جیسے ان کارکنوں کو مروانے کے لئے ہی تیار کرکے لے جایا جارہاہو،
اور وہ کارکن حضرات بھی اب ٹھنڈے دماغ سے جیلوں اور حوالاتوں میں سڑنے کے بعد ہی سوچیں گے کہ اڈیالہ سے کسی کو نکالنا اور خود جیل جانے میں کتنا فرق ہوتاہے؟
ویسے اب زخموں کی مرہم پٹی کی ضرورت بھی ہوگی جس کے لئے گنڈاپوری شہد کافی نہیں بلکہ پراپر علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔
ویسے ایک بات اور اگربڑھکیں مارنے اور دھمکیاں دینے سے مسئلے حل ہوتے تو آج دنیا میں کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔