برصغیر کی سیاسی تاریخ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا نام ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ عام بیانیے میں اسے مسلمانوں کی اجتماعی سیاسی بیداری کا محور بتایا جاتا ہے، مگر اگر اس کی تشکیل اور ارتقاء کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ تصویر کچھ اور رخ اختیار کر لیتی ہے ۔ 1906 میں ڈھاکہ کے نواب سلیم اللہ خان کی رہائش گاہ پر قائم ہونے والی یہ جماعت دراصل برصغیر کی مسلم اشرافیہ کا ایک منظم سیاسی اتحاد تھی، جس میں نواب، جاگیردار، بڑے زمیندار، اور وہ تعلیم یافتہ طبقہ شامل تھا جو براہِ راست برطانوی راج سے مراعات یافتہ تھا ۔ اس کا بنیادی مقصد مسلمانوں کے جداگانہ مفادات کے تحفظ کے نام پر دراصل اپنی جاگیریں، زمینیں اور سیاسی اثر و رسوخ محفوظ رکھنا تھا ۔
لفظ "League” کا انتخاب بھی محض ایک اتفاق نہیں تھا ۔ اس دور میں برطانوی سیاسی لغت میں "League” ایک ڈھیلے اتحاد یا لچکدار معاہدے کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا، جہاں مختلف گروہ یا صوبے اپنی الگ شناخت برقرار رکھتے ہوئے کسی مشترکہ مقصد کے لیے اکٹھے ہوں ۔ برصغیر میں یہ مقصد "مسلمانوں کے سیاسی حقوق کا تحفظ” قرار دیا گیا، لیکن اس کے پسِ پشت اصل محرکات طبقاتی مفادات کا دفاع تھے ۔ جیسا کہ پروفیسر ایچ۔ کے۔ شیرانی اور بعد میں حمزہ علوی نے لکھا، نوآبادیاتی دور میں مسلم لیگ کی قیادت بنیادی طور پر وہی طبقہ کرتا رہا جس نے انگریز کے ساتھ وفاداری نبھائی اور اس کے بدلے زمینوں، خطابات اور مراعات سے نوازا گیا (Alavi, 1972)۔
عوامی سطح پر اس اتحاد کو مضبوط اور پائیدار بنانے کے لیے اسلام کو بیانیے کا مرکز بنایا گیا ۔ "دو قومی نظریہ” کو نہ صرف ہندو اکثریت کے مقابلے میں سیاسی ہتھیار کے طور پر پیش کیا گیا بلکہ عوامی جذبات کو مہمیز دینے کا بھی ذریعہ بنایا گیا ۔ ایوب خان کی ابتدائی تحریروں اور محمد علی جناح کی تقاریر میں بارہا "مسلمان ایک الگ قوم ہیں” کا جملہ اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔ مگر جیسا کہ عائشہ جلال اپنی کتاب The Sole Spokesman میں لکھتی ہیں، یہ تصور ایک سیاسی حکمتِ عملی بھی تھا، جس کے ذریعے لیگ نے خود کو "مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت” کے طور پر پیش کیا، حالانکہ بنگال، پنجاب اور سرحد میں متعدد مسلم رہنما لیگ کے مخالف بھی تھے (Jalal, 1985)۔
یہ حقیقت بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ لیگ کی صفِ اول کی قیادت متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے دروازے شاذ و نادر ہی کھولتی تھی ۔ قیادت زیادہ تر انہی خاندانوں کے پاس رہی جو پہلے سے سیاسی اثر و رسوخ رکھتے تھے ۔ یہ طبقہ ایک طرف مسلمانوں کی "سیاسی آزادی” کی بات کرتا رہا، دوسری طرف برطانوی اقتدار کے ساتھ عملی تعاون بھی جاری رکھا ۔ جیسا کہ علی عثمان قاسمی اور میگن روب نے اپنی کتاب Muslims Against the Muslim League میں لکھا ہے، بہت سے مسلم دانشور اور سیاست دان لیگ کی پالیسیوں کو جاگیردارانہ اور عوام دشمن سمجھتے تھے (Qasmi & Robb, 2017)۔
قیامِ پاکستان کے بعد یہ طبقاتی ڈھانچہ جوں کا توں برقرار رہا ۔ جن جاگیرداروں اور وڈیروں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا تھا، وہی نئے ملک میں اقتدار کے اہم ستون بن گئے ۔ مذہب کا سیاسی استعمال بھی ختم نہ ہوا , کبھی اسے قومی اتحاد کے نام پر استعمال کیا گیا، کبھی مخالفین کو کافر یا غدار قرار دینے کے لیے ۔ اس تسلسل نے جمہوری اداروں کو کمزور کیا اور عوامی سیاست کو بار بار پسِ پشت ڈالا ۔
یوں مسلم لیگ کی کہانی ایک طرف برصغیر کے مسلمانوں کی قومی شناخت کے بیانیے کی تعمیر کی کہانی ہے، تو دوسری طرف یہ اشرافیہ کے اس طبقاتی اتحاد کی داستان بھی ہے جس نے مذہب کو سیاسی طاقت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا ۔ یہ گٹھ جوڑ آج بھی پاکستان کی سیاست میں مختلف شکلوں میں موجود ہے، اور تاریخ کے اس پہلو کو سمجھے بغیر ہم نہ ماضی کو درست طور پر پڑھ سکتے ہیں، نہ حال کی پیچیدگیوں کو سلجھا سکتے ہیں ۔
برس گزر گئے، لیکن اسی اشرافیہ کا اقتدار برقرار ہے, نام بدلتے رہے، پارٹیوں کے پوسٹر تبدیل ہوتے رہے، مگر طاقت کے اصلی مراکز، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، اور ریاستی مشینری کے ہاتھ آج بھی مضبوط ہیں ۔ ایک حالیہ اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان کا امیر ترین ۱٪ طبقہ ملک کی ۹٪ آمدنی ہڑپ کر لیتا ہے، جبکہ یہ ’اشرافیہ کا قبضہ‘ تخمینہ تقریباً ۱۷٫۴ ارب ڈالر (۶٪ معیشت) ہے، جو حکومتی وسائل اور زمینی وسائل پر غیر متناسب کنٹرول کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس اشرافیہ نے اسلامی نظریاتی ریاست کے نام پر آزاد ملک کو ایک طبقاتی نظام میں قید کر دیا، جہاں مساوات اور عدل کے نعرے فقط بیانیہ ہیں، حقیقت نہیں ۔
قیامِ پاکستان کے حصول تک عوام نے اپنے حق کا خواب دیکھا لیکن آج وہی طبقاتی ڈھانچہ عوام کو باقی حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہے ۔ جہاں کسان، مزدور، متوسط طبقہ اور خواتین بنیادی حقوق کے حصول میں پیچھے ہیں، وہاں اشرافیہ کا سیاسی اور معاشی طاقت کا تسلسل مضبوط اور محفوظ ہے ۔
بین الاقوامی سطح پر کئی ملک ایسے ہیں جنہوں نے آزادی کے بعد معاشی خودمختاری حاصل کی ۔ جنوبی کوریا نے ریاستی منصوبہ بندی کے تحت "ڈیولپمنٹل اسٹیٹ” ماڈل اپنایا، جس میں ریاست نے صنعتی ترقی کی مرکزیت اختیار کی، اور آج وہ ایشیا کے چار اقتصادی ڈریگنز میں سے واحد ہے جس نے غربت کو جڑ سے ختم کیا ۔ ملائشیا نے پانچ سالہ معاشی منصوبہ بندی کر کے ترقی کی راہ پر قدم رکھا ۔ لیکن پاکستان، سخت طبقاتی تقسیم، اشرافیہ کا قبضہ اور نظامی ناانصافی کے شکنجے میں پھنس گیا، آزاد ضرور ہوا، مگر آزاد نہیں ہو سکا ۔
اصل آزادی اب صرف ایک تاریخی دن کا تذکرہ نہیں، بلکہ ایک جاری جدوجہد ہے:
اس آزادی کا مقصد صرف سیاسی اختیارات کا حصول نہیں، بلکہ حقیقی معاشی آزادی، عوامی شمولیت، انصاف اور سماجی برابری کا نظام قائم کرنا ہے ۔
یہ آزادی کسانوں، مزدوروں، مڈل کلاس اور پسے ہوئے طبقوں کے لیے ہو جہاں زمین، طاقت اور وسائل مساوی تقسیم کے معیار پر ہوں ۔
اشرافیہ کو اقتدار میں تبدیلی کی سیاست کی بجائے، نظامی تبدیلی کا چیلنج دینا ہے، ٹیکس اصلاحات، پبلک فنڈز کی شفاف تقسیم، زرعی اصلاحات، اور حقیقی عوامی نمائندگی کے لیے مؤثر ادارے بنانا ہیں ۔
اگر اس ۱۴ اگست پر ہم یہی فیصلہ کریں کہ پاکستان کو اشرافیہ کی غلامی سے نکال کر عوام کا آزاد وطن بنایا جائے، تو یہی حقیقی جشنِ آزادی ہوگا ۔
حوالہ جات:
Jalal, Ayesha. The Sole Spokesman. Cambridge University Press, 1985.
Alavi, Hamza. "The State in Post-Colonial Societies…” New Left Review, 1972.
Qasmi, Ali Usman & Robb, Megan Eaton. Muslims Against the Muslim League. Cambridge University Press, 2017.
UNDP report on elite capture in Pakistan (2021)
"Developmental State” model – South Korea
Malaysia economic planning post-independence