ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی نے مشرق وسطیٰ کے سیاسی اور عسکری منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ جس ایران کو برسوں سے عالمی پابندیوں، تکنیکی تنہائی اور معاشی بحرانوں کے باعث ایک کمزور ریاست سمجھا جاتا تھا، وہ آج دنیا کی جدید ترین فوجی طاقتوں میں شمار ہونے والے اسرائیل پر تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے۔ 13 جون کو اسرائیل کی جانب سے ایران پر کی گئی جارحیت کے بعد تہران نے بھرپور ردعمل دیا۔ ایرانی میزائل اور ڈرون حملوں نے نہ صرف اسرائیلی دفاعی نظام کو چکمہ دیا بلکہ تل ابیب سمیت کئی بڑے شہروں کو نشانہ بنایا، جہاں عمارتیں کھنڈر بن گئیں، درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔
ایران کی اس غیر متوقع عسکری کامیابی کے پیچھے برسوں کی خفیہ منصوبہ بندی اور جنگی حکمت عملی کارفرما نظر آتی ہے۔ اگرچہ ایران جدید مغربی ٹیکنالوجی تک براہ راست رسائی نہیں رکھتا، مگر اس نے روسی، چینی اور مقامی طور پر تیار کردہ دفاعی سسٹمز کو نہایت چالاکی سے استعمال کرتے ہوئے ایک ایسے میزائل اور ڈرون نیٹ ورک کی بنیاد رکھی جو اسرائیل کے کثیر الجہتی دفاعی نظام کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہو گیا۔ پاسدارانِ انقلاب نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے اسرائیلی دفاعی نظام میں ایسی تکنیکی خلل پیدا کی کہ وہ خود اپنے ہی یونٹس کو نشانہ بنانے لگا۔ ان کے مطابق یہ حملے انتہائی جدید انٹیلیجنس اور مقامی ٹیکنالوجی کے ذریعے ممکن ہوئے، جس نے اسرائیل کی "ناقابلِ شکست” دفاعی دیوار میں دراڑ ڈال دی۔
اسرائیلی وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے انکشاف کیا ہے کہ ایران نے ایک میزائل براہِ راست ان کی رہائش گاہ کی کھڑکی پر داغا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی حملے نہ صرف دفاعی بلکہ علامتی اور سیاسی پیغام بھی دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، اسرائیل نے یہ تسلیم کیا ہے کہ ایران کے زمین سے زمین تک مار کرنے والے ایک تہائی میزائل لانچرز کو تباہ کر دیا گیا ہے، مگر ایران کی جنگی صلاحیتوں پر اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا، کیونکہ حملے بدستور جاری ہیں اور شدت اختیار کر رہے ہیں۔ اسرائیلی وزیرِ دفاع نے تہران کے شہریوں کو نتائج بھگتنے کی دھمکی دی ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ جنگ مزید وسعت اختیار کر سکتی ہے۔
ایران کی عسکری طاقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اسرائیلی فضائیہ کی صلاحیتوں اور دفاعی حکمت عملی کا برسوں سے مطالعہ کرتا رہا ہے، خاص طور پر ان کارروائیوں کا جو ایران کے اتحادی ممالک جیسے عراق، شام اور یمن میں کی گئی تھیں۔ ان تجربات کی روشنی میں ایران نے اپنے ڈرونز، بیلسٹک میزائلز، اور دفاعی نظام کو غیر معمولی حد تک اپ گریڈ کیا۔ اس نے روسی S-300 سسٹم سمیت مختلف ممالک سے حاصل شدہ ٹیکنالوجی کو مقامی حالات کے مطابق ڈھالا اور ایک ایسا دفاعی جال بچھایا جو دشمن کی حرکات کو پہلے سے بھانپنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ صورتِ حال اب صرف ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ نہیں رہی، بلکہ ایک عالمی طاقتوں کی پراکسی جنگ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک ایران کے خلاف پابندیاں سخت کرنے کی بات کر رہے ہیں، جبکہ ایران یہ واضح پیغام دے رہا ہے کہ وہ اب کسی عالمی دباؤ کے آگے سر جھکانے والا نہیں۔ ایران کی مسلسل میزائل باری، اسرائیل کا جارحانہ ردعمل، اور دونوں اطراف سے کی جانے والی زبانی دھمکیاں اس بات کا عندیہ ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ ایک ایسے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے جو خطے کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس جنگ نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ "کمزور” سمجھے جانے والے ممالک اگر عزم، حکمت عملی اور جدت سے کام لیں تو وہ بڑی طاقتوں کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔