اسلام آباد(رشيد آفاق) جس طرح ہماری مظلوم اور یتیم صحافت میں وہ صحافی ہمیشہ زیرعتاب،زیر عذاب رہتے ہیں جو عوام کے حقوق کی خاطر لڑتے ہیں،جھگڑتے ہیں،لپٹ کر،جپٹ کر گرتے ہیں اور پھر اُٹھ کر جپٹتے ہیں اور وہ صحافی ہمیشہ عرش پر بیٹھ کر ان صحافیوں پر ہنستے ہیں جو ان کی مہربانیوں اور کاوشوں سے زمین پر رینگتے ہیں،وہ صحافی جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے زمینی خداوں کی ایک ایک مزاح پر دس دس بار اس انداز میں ہنستے ہیں کہ سامنے والے کو ان کی حلق تک نظر آتی ہے،ہر چڑھتے سورج کی پوجا اس انداز میں کرتے ہیں کہ کبھی کبھی تو خود زمینی سورج کا بھی نکلنے کو دل نہیں کرتا،ان آقاوں کی ہر غلط بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے ساری ساری رات نہیں سوتے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حضرات ان کی حصوں کی نیند بھی اپنے نام کرکے سوتے ہیں،یہ حضرات ہر محکمے کے فری لانسر پی آر اوز بنے ہیں۔
اسی طرح پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بھی وہ پولیس آفیسرز جو اپنے باس کو مائی باپ کہہ کر نہ شرماتے ہیں نہ ان کی جھوٹی تعریفیں کرکے تھکتے ہیں ہر اہم پوسٹ پر براجمان نظر آتے ہیں، ترقی کی پانے کے لئے ایسے بے قرار ہوتے ہیں جیسے نئی نویلی دلہن سہاگ رات کی بیڈ کے لئے بے چین رہتی ہے۔
یہ حضرات نہ صرف نبض شناس ہوتے ہیں بلکہ مردم شناسی کے ساتھ ساتھ نفس شناسی کے بھی ماہر ہوتے ہیں ان کو یہ تک پتہ ہوتا ہے کہ نمک منڈی کی روسٹ گوشت کونسے تاجر کے لئے کونسا دکاندار ریشمی انداز میں بناتاہے اور پھر وہ گوشت صاحب کو لانے اور کھلانے کے بعد یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صاحب سنت کی بجا آوری کے لئے بطور سویٹ پہلے رس گلہ کھائیگا یا رس ملائی؟
ان صاحبان کو صاحب کا ہر ناجائز کام جائز بنانے کا کام بھی خوب آتا ہے،صاحب کے کپڑے کہاں سے لینے،کہاں سے سلوانے ہیں اور کونسے موسم میں کونسا کپڑا صاحب کے جسم کو سوٹ کرتا ہے،صاحب کے من پسند آموں کے اتنے نام یاد رہتے ہیں کہ آم کے باغات میں کام کرنے والے بھی ان کے سامنے کچھ نہیں،یہ صاحبان ہر جگہ پائے جاتے ہیں اور ہر اہم پوسٹ پر اپنا تبادلہ ایسے کراتے ہیں جیسے مکھی ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنی مرضی سے اڑ جاتی ہے۔
جبکہ دوسری طرف وہ پولیس آفیسرز جو پولیس کی آن،بان اور شان ہیں وہ بے چارے ہمیشہ سے ایسے زیرعتاب رہتے ہیں کہ ایک عذاب کو سہہ کر دوسرا تیار سامنے کھڑا رہتاہے،وہ کیا کہتے ہیں کہ
شائد ان کا آخری ہو یہ ستم
ہر ستم یہ سوچ کر ہم سہہ گئے
ان میں اگر میں شروعات عبادوزیر سے کروں تو برا نہیں ہوگا،عباد وزیر خیبرپختونخوا پولیس کی شان ہے،آج پشاور کو اگر ضرورت ہے تو عباد وزیر جیسے پولیس آفیسر کی ہے لیکن ان کو جان بوجھ کر لکی مروت بھیجا گیا ہے تاکہ خدانخواستہ کسی دن اقبال مومند ڈی ایس پی کی طرح اسے بھی قومی جھنڈے میں لپیٹ کر مگر مچھ کے آنسووں پر سلوٹ مار کر روئے۔
اسی طرح قاضی عارف،عمران الدین،اعجاز چمکنی،کامران مروت،قاضی نثار،مبارک زیب اور عمران اللہ جیسے قابل اور نڈر پولیس آفیسرز ہمیشہ اذیتوں سے دوچار رہتے ہیں،ایک ایک دن میں دو دو بار بار تبادلے اور منسوخیاں کی جاتی ہیں۔
میں گزشتہ چھ سات سالوں سے ڈی ایس پی مختیار علی کو جانتا ہوں وہ سی سی پی او کے پی ایس او سے لیکر آج تک ڈی ایس پی ہی ہے،ابھی تک ایس پی نہیں بنائے گئے نہ ہی کسی کماو ایریا والے علاقے میں تعنیات ہوئے کیونکہ موصوف بھی مندرجہ بالا صفات کریمی سے مبرا ہے اور اس کے ساتھ کام کرنے والے اے ایس آئی اور ایس آئی حضرات بھی خصوصی رعایتیں لیکر بڑے بڑے اضلاع کے ڈی پی اوز تعنیات ہیں،جن کے آگے پیچھے سائرن بجتے رہتے ہیں۔
بس یہی حال دیگر محکموں میں بھی ہے لیکن پولیس اور صحافت میں کچھ زیادہ ہی ہے۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
منگل, نومبر 19, 2024
بریکنگ نیوز
- یو اے ای میں پاکستانی شہریوں کے ویزوں پر پابندی نہیں لگائی گئی،پاکستانی سفارتخانہ
- توڑ پھوڑ کیس،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کے وارنٹ گرفتاری جاری
- بنوں: قبائلی عمائدین کی کوششوں سے7 مغوی پولیس اہلکار بازیاب
- افغانستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے، پاکستان نےچین کو ثبوت پیش کر دئیے
- وزيراعلیٰ گنڈاپور کی اڈیالہ جیل میں عمران خان کو احتجاج کی تیاریوں اور سی ایم ہاوس کی سرگرمیوں پر تفصیلی بریفنگ
- آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کےخلاف دائر درخواست عدم پیروی پر خارج
- خیبر ٹی وی پشاور کا ( گارڈ روم) مزاحیہ مگر ایک بامقصد پروگرام
- ڈرامہ سیریل حیا کا مرکزی خیال اور سکرپٹ میرا ھے۔ بخت رواں بخت