ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں سفارت کاری کا سب سے مؤثر ہتھیار اب صرف مذاکرات نہیں، بلکہ سٹیج پر لڑی جانے والی جنگیں بھی ہیں۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی اسی سٹیج پرفارمنس کا ایک مکمل نمونہ تھی، ایک ایسا تنازعہ جو اپنے انجام سے زیادہ اپنے اختتام کی نوعیت کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ یہ کوئی روایتی جنگ نہ تھی، نہ ہی مکمل امن۔ یہ ایک سکرپٹ شدہ تنازعہ تھا، جس میں گولہ باری کی آوازیں سنائی گئیں، مگر فریقین کے ہاتھ کسی واضح فتح یا شکست سے محفوظ رہے ۔
شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر اسرائیلی بمباری، جس میں پاسدارانِ انقلاب کے سینیئر کمانڈر مارے گئے، اس کشیدگی کا سنگین آغاز تھی ۔ سفارتی قوانین اور عالمی روایت کی کھلی خلاف ورزی نے ایران کو ردعمل پر مجبور کیا۔ 13 اپریل 2024 کو ایران نے اپنی سرزمین سے براہ راست اسرائیل پر بیلسٹک میزائل، کروز میزائل اور ڈرونز پر مشتمل ایک مشترکہ حملہ کیا ، ایک ایسا اقدام جس کی مثال گزشتہ دہائیوں میں نہیں ملتی ۔ ایران کے دعوے کے مطابق یہ "انقلاب کی تاریخ کا پہلا براہِ راست انتقامی حملہ” تھا ۔ حملے کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کی جانب 300 سے زائد ہتھیار داغے گئے ۔
لیکن نتیجہ؟ اسرائیل نے امریکی، برطانوی، فرانسیسی، اور اردنی فضائی دفاعی نظاموں کی مدد سے ان میں سے تقریباً تمام حملے ناکام بنا دیے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق 99 فیصد میزائل اور ڈرونز راستے میں ہی مار گرائے گئے۔ صرف ایک 7 سالہ بچہ زخمی ہوا، اور ایک فوجی تنصیب کو معمولی نقصان پہنچا۔ اس کے باوجود ایران نے اعلان کیا کہ اس نے "بدلہ لے لیا” ہے اور "مشن مکمل ہو چکا” ہے۔ تہران میں خوشی منائی گئی، اور اسرائیلی حکومت نے بین السطور اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "دشمن کو پیغام مل چکا ہے”۔
چند دن بعد اسرائیل نے ایران کے شہر اصفہان میں ایک ہدفی کارروائی کی، جس کا دائرہ ایران کی ایٹمی تنصیبات کے نزدیک تک پہنچا۔ اس حملے کے بعد بھی دونوں ممالک نے تصادم کو بڑھانے سے گریز کیا ۔ ایران نے اسے "معمولی واقعہ” قرار دیا، جب کہ اسرائیل نے اپنی فوجی برتری کا عندیہ دیتے ہوئے خاموشی کو ترجیح دی ۔
اس تمام عرصے میں امریکہ کی حکمت عملی سب سے اہم رہی ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں واشنگٹن نے ایک طرف اپنے مشرقِ وسطیٰ میں موجود اڈوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے عراق و شام میں ایران نواز گروہوں پر حملے کیے، تو دوسری طرف اسرائیل پر سفارتی دباؤ ڈالا کہ وہ اس ردعمل کو طول نہ دے ۔ امریکی پالیسی ساز جانتے تھے کہ ایک بڑی جنگ مشرقِ وسطیٰ کو دوبارہ آگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے، اور امریکہ کے لیے یہ بوجھ سیاسی، سفارتی اور اقتصادی طور پر ناقابلِ برداشت ہو گا ۔
یہ کشمکش بظاہر عسکری تھی، مگر اس کا اصل میدان بیانیہ تھا ۔ ایران کو داخلی طور پر ایک "فتح” کی ضرورت تھی تاکہ وہ اپنی قوم کو یہ باور کروا سکے کہ وہ اسرائیل کے سامنے کمزور نہیں ۔ اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر اپنی قوت اور دفاعی صلاحیت دکھانی تھی، اور امریکہ کو دونوں کو قابو میں رکھ کر خطے کا توازن قائم رکھنا تھا ۔ یوں ہر فریق نے وہی کچھ کیا، جو اسے اپنے داخلی سیاسی و سفارتی مفادات کے تحت کرنا تھا ۔
میڈیا کا کردار بھی اس سکرپٹ کا حصہ رہا ۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے حملے کو تاریخی فتح قرار دیا ۔ اسرائیلی میڈیا نے اسے معمولی خطرہ کہہ کر عوام کو مطمئن کیا ۔ مغربی میڈیا نے اسے ٹھنڈے مزاج کی سفارت کاری کی فتح کے طور پر پیش کیا، جیسے تین ایٹمی دہانے والے ممالک نے خود کو کنٹرول کر کے دنیا کو بچا لیا ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کو وہی دکھایا گیا، جو ان کے حوصلے بلند رکھے اور اسٹیبلشمنٹ کو تحفظ دے ۔
یہ کہنا کہ یہ سب کچھ "طے شدہ کھیل” تھا شاید مبالغہ ہو، مگر یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تصادم غیر ارادی یا بے قابو ہرگز نہیں تھا ۔ تمام بڑے فریق اپنی "ریڈ لائنز” اور "محدود دائرۂ جنگ” پر پہلے ہی متفق ہو چکے تھے ۔ جو کچھ ہوا، وہ اسی دائرے کے اندر ہوا ، ایک ایسا عمل جسے اب "کنٹرولڈ اسکیلیشن” یا "سیاسی جنگی تھیٹر” کہا جاتا ہے ۔
اس ساری کارروائی سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ اب صرف بارود کی دھمک سے نہیں ہلتا، بلکہ "محدود جنگ” اور "بڑے پیغامات” کے امتزاج سے توازن قائم کیا جاتا ہے ۔ نہ مکمل جنگ ہوتی ہے، نہ مکمل امن۔ یہ خطہ اب "امن کے سائے میں معلق جنگ” کی کیفیت میں ہے ۔ ہر فریق جانتا ہے کہ سٹیج پر کب آنا ہے، کیا بولنا ہے، اور کب پردے کے پیچھے لوٹ جانا ہے ۔
ایران اور اسرائیل کی خاموشی امن کی علامت نہیں، بلکہ حکمت عملی کی نشانی ہے ۔ اور جو چیز سب سے زیادہ خطرناک ہے وہ یہ کہ اب جنگ اور امن کے بیچ جو پردہ گرا ہے، اس کے پیچھے کیا ہو رہا ہے، یہ دنیا کو نظر نہیں آتا ۔ یہ وہ نیا مشرقِ وسطیٰ ہے ، جس میں ہر چیز دیکھی جا سکتی ہے، سوائے سچ کے ۔