مشرق وسطیٰ میں جاری ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ جنگ بندی نے ایک طرف اسرائیلی عزائم کو خاک میں ملایا ہے، تو دوسری جانب پاکستان کے دیرینہ مؤقف کو درست ثابت کر دیا ہے۔ اسرائیل اس جنگ کا آغاز ایران میں "ریجیم چینج” کے مقصد کے ساتھ کر رہا تھا، لیکن نہ صرف وہ اس مقصد میں مکمل طور پر ناکام رہا، بلکہ ایران نے اپنے دفاع اور حملے دونوں سے اسرائیل کو ایسا زخم دیا کہ اسرائیل کو بالآخر مذاکرات کی میز پر آنا پڑا۔
ایران نے 1500 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے سے اسرائیل کے اس قدر مضبوط سمجھے جانے والے "گلوبل ایئر ڈیفنس سسٹم” کو ناکام بنایا اور مؤثر طریقے سے اسرائیل کو نشانہ بنایا، جس نے اسرائیلی ناقابلِ شکست ہونے کے تاثر کو زبردست دھچکا پہنچایا۔
اس دوران ایک ملک جس کا چہرہ مکمل طور پر بے نقاب ہوا وہ بھارت تھا۔ بھارت جو ایران کا تزویراتی شراکت دار بننے کا دعویٰ کرتا رہا، جنگ کے وقت اسرائیل کی کھلی حمایت کر کے ایران سے بے وفائی کر گیا۔ یہ بھارت کی منافقانہ خارجہ پالیسی کا ایک اور ثبوت تھا۔
دوسری طرف پاکستان نے ایک بار پھر سفارتی فہم و فراست، اصول پسندی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے واضح اور دلیرانہ انداز میں ایران کی اخلاقی و سفارتی حمایت کی۔ پاکستان نے شروع دن سے اس جنگ کو روکنے اور پرامن حل تلاش کرنے کی کوشش کی، نہ صرف ایران سے بلکہ امریکہ اور دیگر شراکت داروں سے مسلسل رابطے میں رہا۔
یہ بھی نوٹ کیا جانا چاہیے کہ واحد ملک جس نے کھل کر ایران کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا، وہ پاکستان تھا۔ پاکستانی حکومت اور عوام نے بیک وقت ایران کی حمایت کی جبکہ دیگر اسلامی ممالک خاموش تماشائی بنے رہے۔ اب امید کی جا سکتی ہے کہ ایرانی قیادت اس کھلے اور دیرینہ اتحاد کا ادراک کرے گی اور ایرانی سرزمین پر موجود "فتنہ الہند” کے کیمپس کے خاتمے میں پاکستان کی مدد کرے گی۔
یہ تنازع ایک اور بڑی حقیقت کو اجاگر کرتا ہے، ایک مضبوط اور پیشہ ور افواج کا قیام محض انتخاب نہیں بلکہ ریاستی خودمختاری اور علاقائی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان کو مشرقی سرحد پر موجود دشمن کی دوبارہ حرکتوں کے خدشے کے پیش نظر ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا۔
آخر میں، بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی جھوٹی مہمات کو پاکستانی انفارمیشن وارئیرز اور میڈیا نے کامیابی سے نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ عالمی برادری کے سامنے بھارت کا جھوٹا اور منافق چہرہ بھی آشکار کیا۔
یہ جنگ صرف ایک فوجی تصادم نہیں تھی، بلکہ بیانیوں، اتحادوں، اور سفارتی بصیرت کی ایک بڑی جنگ تھی — اور اس میں پاکستان نے اپنی پوزیشن مضبوطی سے منوائی۔