ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا
آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا
مختصر تعارف
محمد یونس چیئرمین بن سید یوسف بابا مرحوم بن غلام خان بابا مرحوم
1973ء کو محلہ یونس خیل طوطالئ میں ایک زمیندار گھرانے سید یوسف بابا مرحوم کے ہاں آنکھ کھولی ،انکے خاندان کا شمار طوطالئ کے معزز ،صاحب جائیداد اور شریف لوگوں میں کیا جاتا ہے
چیئرمین کون تھے انکے پاس کونسا عہدہ تھا وہ سی۔سی۔ایس امتحان پاس کرکے اے۔سی یا انسپکٹر لگ گئے تھے ،کوئی بہت بڑا جاگیر دار تھے ، نہ عالم دین تھے ، نہ مبلغ اور مشائخ تھے ، نہ کالج کے بہت بڑے پروفیسر تھے ،نہ ڈاکٹر یا انجنئیر تھے اور نہ ہی وزیر یا مشیر تھے نہ فوج کے جنرل تھے اور نہ ہی انکا شمار خدوخیل کے امیر ترین لوگوں میں کیا جاتا تھا نہیں بھائی مندرجہ بالا کسی بھی عہدے پر فائز نہیں تھے دولت بھی نہیں تھی تو پھر کیوں لوگ ان سے حد سے زیادہ پیار ومحبت کرتے ان پر مرتے تھے موت کے دن کیوں برزگ،دیوانے ،چھوٹے بڑے اور عورتیں رو رہی تھی بھائی ایک چیز تھی جسکی بنا پر انھوں نے لوگوں کی دل جیت لیے تھے اخلاق ،انسانیت سے پیار ،خدمت خلق پر یقین رکھتے تھے اسوجہ سے لوگوں کی دلوں کی دھڑکن تھی ڈیرے پر شب و روز میں سیکنڑوں افراد آتے اور ان سے دل کی بات کرتے ،مشورہ لیتے ،مدد مانگتے پتہ نہیں ان ملنسار انسان پر پختہ یقین بنا ہوا تھا ایک لگاؤ تھا ایک عقیدت تھی نوجوان نسل میں اتنا مقبول ترین شخص کبھی نہیں دیکھا ،
ابتدائی تعلیم
انھوں نے پرائمری و سیکنڈری دونوں تعلیم اپنی ہی گاؤں میں حاصل کی مگر بچپن سے تعلیم میں کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی البتہ کھیل کود کے دلدادہ تھے گورنمنٹ ہائی سکول طوطالئ فٹ بال ٹیم کے کھلاڑی رہے فٹ بال میں ایک بہترین ڈیفینڈر کیوجہ سے ایک مخصوص پہچان رکھتے تھے انکے علاؤہ کرکٹ کا بھی ایک بہترین اوپنر بلے باز تھے ،یعنی بیک وقت دونوں کھیل کھیلتے ،کھیل کود سے ریٹائرمنٹ لینے کے بعد بھی گراؤنڈ کو خیر باد نہیں کہا بلکہ فٹ بال ٹورنامنٹ میں امپائرنگ کے لیے اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے اور وہاں پر بھی کھلاڑیوں کو سپورٹس،مین اور سپرٹ کا درس دیتے.سکول سے فارغ ہونے کے بعد غالباً 1994ء میں ٹرانسپورٹ سے منسلک ہوئے 2004ء میں والد صاحب کی وفات کے بعد انکی زندگی مکمل طور پر تبدیل ہوئی.اپنی گھر کی ذمہ داری اور اپنے آپکو ایک سانچے میں ڈھل دیا نوجوانی اور شباب کی حیات کو الوداع کہہ دیا
2007ء میں دبئی کو وزٹ پر آئے،پردیس کی زندگی سے سخت نفرت تھی دبئی میں کچھ ہی دنوں میں کٹھن محسوس کرنے لگے ، میں اکثر ہنسی مزاق میں کبھی کبھار اسکو کہتا کہ بھائی ایک عربی کے پاس فری ویزہ ہے اگر لگانے کا ارادہ رکھتے ہو تو وہ ہنس جاتا کہ نہیں خدار مجھے پردیس میں نہیں رہنا ہے.
سیاسی و سماجی زندگی کا آغاز
2010/11 میں ثواب تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی جس کا مقصد خدمت خلق کرنا تھا اس تنظیم نے بہت کچھ عرصے میں خدمت خلق میں خوب نام کمایا اور ہر طرف اسکی چرچے ہونے لگے اس تنظیم میں محمد یونس مرحوم پیش پیش رہے اور یہی ٹرننگ پوائنٹ ہے جس نے مرحوم کی دل میں انسانیت کی خدمت کا جذبہ ابھارا اور مرتے دم تک اسی خدمت کو زندگی کا مقصد بنایا یوں سمجھ لیجئے مرحوم ثواب تنظیم کی پیداوار ہے اور یہی سے انھوں اپنی سیاسی و سماجی زندگی کا آغاز کیا اور آگے چل ہر قدم پر کامیابی نے انکی قدم چومے اور انہیں گلے سے لگایا انھوں نے عاجزی اور خاکساری میں اپنا لوہا منوایا.
چیئرمین کا نام کیسے پایا
2015ء میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہوا موصوف تو پہلے سے خدمت خلق پر یقین رکھنے والوں میں سے تھا حلقہ احباب اور رشتہ داروں نے کہا کہ آپ بہتر خدمت کرسکتے ہیں آپ انتخابات میں حصہ لیں انھوں نے مشاورت کرنے کے بعد الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا اور ویلج کونسل طوطالئ میں سب سے زیادہ ووٹ لیے اور ویلج کونسل طوطالئ کا چیئرمین منتخب ہوا اور یہاں سے چیئرمین کے نام سے شہرت پائی اسکے بعد بہت کم لوگ اسکو اپنے نام سے یاد کرتے زیادہ تر لوگ چیئرمین بلاتے ،2021ء میں پاکستان تحریک انصاف نے متفقہ طور پر ایک بار بیٹ کی نشان سے اسکو ٹکٹ دیا حالانکہ ان دنوں ان پر فالج نے اٹیک کیا تھا مگر پی۔ٹی۔ائی ورکرز صرف اس پر متفق تھے اسی الیکشن میں وہ جنرل ممبر منتخب ہوئے مگر وہ لوگوں کے دلوں میں پہلے جیسے چیئرمین تھے سیاسی مخالفین کو اخلاق سے شکست دینے کا ہنر جانتے یعنی انکا سیاسی بصیرت حد درجے کمال کا تھا
کچھ بچھڑا اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگئے
سیاسی وابستگی
انکا خاندان آباؤ اجداد سے پاکستان مسلم لیگ میں تھے پارٹی میں انکا ایک خاص مقام تھا مگر کچھ وجوہات کی بنا پر انھوں نے 2019ء میں مسلم لیگ سے راہ جدا کرلی اور پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوئے اس شمولیت کو چار چاند لگانے کے لیے سابقہ قومی سپیکر اسد قیصر تشریف لائے تھے اور چیئرمین کو ٹوپی پہنائی
انکو لاحق بیماریاں
آج سے تقریباً پندرہ سال پہلے پہلی بار انکو دل کا دورہ پڑ گیا تھا مگر علاج معالجے کے بعد صحت مند ہوئے ،دوسری بار کرونا وائرس کے دوران 2020ء کو دوسری بار ہارٹ اٹیک ہوگیا ،2021ء میں فالج نے اٹیک کردیا ساتھ ساتھ وہ شوگر مریض بھی تھے مگر واکنگ اور کھانے پینے میں حد درجے پرہیز کا خیال رکھتے تھے۔اگر صحیح معنوں میں انکو خدائی خدمت گار نہیں کہا جائے تو میرے خیال میں بہت بڑی زیادتی ہوگی انھوں نے زیادہ تر غریب اور نادار لوگوں کی خدمت کی ہے بیمار پرسی کے لیے دور دراز علاقوں تک جاتے اور اس میں سکون میں محسوس کرتے ،ہر کسی کی غمی و خوشی میں ضرور شرکت کرتے، سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ حصہ لیتے جانی مدد کے ساتھ مالی تعاون بھی کرتے کیونکہ مالی لحاظ سے ان پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی کرم تھی اور کچھ معزور اور دیوانہ لوگوں کی دعائیں بھی تو تھی ،دیوانہ لوگوں کے ساتھ کھانے میں عار محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی کچھ نفرت، انکے ساتھ کھانا کھاتے اسکو نہاتے ،صاف کرتے یہاں تک کہ سہیل نامی دیوانہ تو اسکا گرویدہ ہوگیا ہے اور مرنے کے بعد بھی تاحال اسکی آنکھوں سے آنسوؤں جاری ہے اور وفات ہونے کے بعد تاحال غمگین اور مغموم ہے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نُوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے پیدا ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا
بچپن سے معاملہ فہم ،صلح جو اور مثبت سوچ رکھنے والے ہمہ گیر شخصیت تھے وہ بات کے کھرے ،دل کے کھرے اور زبان کے کھرے انسان تھے ،علماءکرام ،مشائخ اور مبلغین سے حد درجے محبت و عقیدت رکھتے تھے اور ہر کام شروع ہونے سے پہلے علماء کرام اور اپنے قریبی رفقاء سے مشاورت ضرور کرتے ،خونی رشتوں کو مضبوط کرنے اور بنی آدم سے تعلق استوار کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے ،انھوں نے بہت قلیل وقت میں جو شناخت بنائی انکی باتیں عوام،نرم لہجہ اور شائستگی الناس کے دلوں میں اتر جاتی ،زبان میں تاثیر اتنی کہ ایک بار کسی کے سامنے بیٹھ جاتے انکار کی گنجائش نہیں رہتی
تیراوی خو جوندن زان د پارہ ھر سوک
جوند ھغہ دے چہ د بل خدمت کی تیر شی
علاقہ مکین حد درجے بھروسہ کرتے ، ہر عام و خاص ،غریب و مالدار ،گورے اور کالے کے درمیان صلح کرنے کے لیے وقت نکالتے بوڑھے ،نوجوان اور خواتین اپنی فریاد لیکر اسکے ڈیرے پر چلے جاتے اور مرحوم ہسنے بستے چہرے سے سنتے ، کسی کی دل آزاری نہیں کی اگر کوئی اسکو سخت لہجے میں بات کرتے اسکا جواب نرم لہجے سے دیتے یا چہرے پر تبسم نمودار ہوجاتی
خوف خدا دل میں اتنی تھی کہ پارٹی کے مشاورت سے انکو زکوٰۃ کا چیئرمین بنایا مگر انھوں نے اسوجہ سے ٹھکرادیا کہ کہیں ایسا نہ ہو مجھ سے غریبوں کی حق تلفی نہ ہوجائے ، انکا ڈیرہ گورنمنٹ ڈگری کالج کے بالکل سامنے ہیں اور پچھلے کئ سالوں سے کالج کے سٹوڈنٹس یہاں اپنا موٹر سائیکل پارک کرتے ہیں انکے علاوہ ایسے کئ سبزی فروش ،چولہے فروش اپنی ریڑیاں انکے ڈیرے میں کھڑے کرتے ہیں مگر مجال ہے کہ اب تک اس سے کسی سے ایک روپیہ معاوضہ مانگا ہو ،وہ صوم اور صلوت کے سخت پابند تھے ،اچھے کھانوں کا اور اچھی لباس کا شوقین تھا
رففاء اور خونی رشتوں کا حد درجے خیال رکھتے ،صابر اور برداشت میں اپنی مثال آپ تھے
بیماری پر ہزاروں لوگوں نے صحت یابی کے لیےدعائیں مانگی مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا تین چار دن پشاور کے آر۔ایم۔ائی ہپستال میں زیر علاج تھے مگر اس بار زندگی کی بازی ہار گئی۔انکی وفات کی خبر علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور علاقے میں ایک کہرام مچ گیا کسی کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اتنی سرعت سے رحلت کرجائے گا آخری دیدار کرنے کے لیے لوگوں کا سمندر امڈ آیا ،سب کے سب چہروں پر افسردگی تھی سفید داڑھی والے رو رہے تھے نوجوان زور وقطار سے چیخ رہے تھے کئ لوگوں کی تو ھچکیاں بند ہوگئی کچھ لوگ بے ہوش ہوگئے تھے،میت کو جب نئی جنازہ گاہ خوڑ میں لایا گیا تو لوگ قطاروں میں آخری دیدار کرنے کے لیے جوق درجوق آتے اور نم آنکھوں سے آخری دیدار کرکے ڈھیر ساری دعائیں کرواتے ،انکی جنازے میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی ہر طرف لوگ ہی لوگ تھے
چہ د منونو خاورو لاندی شم نو اوباوامہ
چہ قافلہ د ستڑی جوند مرام تہ اورسیدہ
تدفین کے وقت چھوٹے بڑے نیز ہر مکاتب فکر کے لوگ موجود تھے لوگوں کے آنکھوں سے آنسوں جاری تھی میرے ایک دوست نے بتایا کہ میں نے یونس چیئرمین کے موت پر ایسے لوگوں کو روتے ہوئے دیکھ لیے مجھے یقین نہیں ہورہا ہے
اسکی فراق اسکے خاندان اور رفقاء کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ہے مگر آخر میں قرآن کا وہی آیت زہن میں یاد آتا ہے کہ ہر زندہ چیز کو موت کا مزہ چکھنا ہے
جتنی عزت اللہ تعالیٰ نے زندگی میں دی اس سے کہیں زیادہ موت پر دی وہ منظر زمین نے دیکھا اور آسمان نے بھی دیکھا۔ایک ہیرا تھا اور اللہ کو پیارا ہوگیا انکی یادیں ،باتیں ،لمحے ہمیشہ ہمارے ساتھ رہی گی۔
انکے بچھڑنے کا ہمیں بہت دکھ ہے اسکی کمی ہمیں تاحیات ستائی گی مگر قلب اسوجہ سے مطمین ہےکہ کبھی اپنے دوست کو مایوس نہیں کیا، جہاں کہیں انکی ہماری ضرورت پڑی ہم نے کھلم کھلا سپورٹ کیا، انکے شانہ بشانہ کھڑے رہے اور اسی طرح وہ ہم سے مرنے تک راضی تھے وہ بھی سخت اور مشکل اوقات میں ہمارا ساتھ دیتے اور ہمیں یکتا اور تنہا نہیں چھوڑتے۔اللہ تعالیٰ اس رمضان کے مقدس مہینے میں انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائیں آمین آپ سب انکو اپنی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔
تحریر:حیدرخان بونیری